پاکستان میں عدم برداشت کا کلچر اور سماجی عوامل
نظامِ اقدار کے اختلاف کی بنا پر یہ ایک لازمی چیز ہے کہ معاشروں کے مابین تصورِ آزادی کی حدود وقیود مختلف ہوں۔ مسلم دنیا میں آزادیِ اظہار کی جو حدود ہیں وہ شاید مغرب میں اس طرح مقبول نہ ہوسکیں۔ اس لیے مسلم معاشرت میں آزادی کی قیود موجود ہیں جنہیں ریاستی و سماجی دونوں سطح پر اہمیت حاصل ہے۔
اظہارِ رائے کی آزادی جدید تہذیب و تمدن کا قیمتی اثاثہ ہے۔ انسانیت نے آزادی کی یہ نعمت صدیوں کی جاں گسل قربانیوں اور مشکلات کے نتیجے میں حاصل کی ہے۔ اگر آزادیِ اِظہارِ رائے کو چند اَخلاقی ضابطوں کا پابند بنا دیا جائے تو اس سے کوئی انسانی حق مجروح نہیں ہوتاکیوں کہ آزادیِ اظہارِ رائے اگرچہ ہر اِنسان کا بنیادی حق ہے، لیکن یہ حق مطلق و بے مہار نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ایسا دعویٰ کر سکتا ہے۔ حقوق کا معاملہ تقابلی نوعیت کا ہوتا ہے اور ان کے اطلاق کا انحصار دوسروں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے ہوتا ہے۔ اس سوچ پر اصرار کرنا کہ آزادی کا یہ تحفہ ایک مطلق حیثیت رکھتا ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے، یہ مسلم دنیا میں قبول نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا حق دوسرے کی بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتا ہو۔ ہر وہ ملک جو اس ’مہذب اور جمہوری‘ دنیا کا حصہ دار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس نے اِظہارِ رائے کی آزادی کے سلسلے میں اپنی سوسائٹی کے مفادات کے پیش نظر اپنی حدود خود متعین کر رکھی ہیں تاکہ مخصوص معاشرتی انسانی رویوں کو ایک خاص سطح پر اپنے علاقائی رسوم و رواج، اخلاق، مسلمہ معاشرتی اقدار، کلچر اور مذہب کی حفاظت کی بنیاد پر برقرار رکھ سکے۔اور ایسا ہی کچھ مسلم دنیا میں بھی نظر آتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کی بات ہے توبلا شبہ جب ہم پاکستان میں چند بڑ ے مسائل کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں سے ایک مسئلہ مذہبی ہم آہنگی کا ہوتا ہے۔اس قضیے کاایک دائرہ مذاہب کا ہے،جبکہ دوسرا دائرہ مذہب کے اندر فرقہ وارانہ اختلاف کا ہے۔بعض ماہرین کے مطابق مذہبی عدم برداشت کا مسئلہ الگ تھلگ نہیں ہے، نہ یہ کہ اس کے محرکات وعوامل صرف دینی نوعیت کے ہیں، بلکہ یہ سماج کاایک عمومی مزاج ہے جو ایسا تشکیل پا گیا ہے کہ جس میں رواداری اور مکالمہ کی جگہ نہیں رہی۔ اس کے اسباب مختلف نوعیت کے ہیں۔یہ صحیح ہے کہ عدم برداشت کے رجحانات میں اضافے کی وجہ سے دنیا میں ہمارا تأثر انتہائی منفی بن گیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ مزید اس سمت کی جانب گامزن نظر آتا ہے۔ اسے بعض افراد مذہبی انتہا پسندی سے جوڑتے ہیں جبکہ مسئلہ محض مذہبی انتہا پسندی کا نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی انتہاپسندی بھی ہے۔ اگر ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح ہمارے لوگوں میں عدم برداشت کا کلچر سرایت کر گیا۔
اس کے اسباب میں اولین سطح پر تعلیم اور تربیت کے مسائل نظر آتے ہیں۔ تعلیم اور تربیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ تربیت کے بغیر تعلیم اور تعلیم کے بغیر تربیت کا عمل مکمل نہیں ہوتا مگر بدقسمتی سے ہمارے سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان غالب آرہا ہے جبکہ سوک ایجوکیشن بھی اب تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں ہے۔تربیت کا فقدان ہونے کی وجہ سے لوگوں میں رہن سہن کے آداب نہیں ہیں اور ہر شخص میں غصہ ہے۔ سماجی انصاف نہ ملنے کی وجہ سے بھی لوگوں میں غصہ اور نفرت پیدا ہوتا ہے بلکہ اب لوگ قانون کی حکمرانی تسلیم کرنے کے بجائے اپنے معاملات خود حل کرنا چاہتے ہیں جس کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔ایسے ہی جب مذہبی تنازعات ہوتے ہیں تو ان میں غصہ غالب آتا ہے جس کا نتیجہ سانحات کی شکل میں نکلتا ہے۔
گویاپاکستانی معاشرہ عمومی طور پہ انتہا پسندی ، عدم برداشت، غصہ، تعصب اور نفرت کی سیاست سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے ۔کیونکہ سماجی ، اخلاقی اور سیاسی مسائل اور ان سے جڑی گھٹن نے پورے معاشرے کو ایک عفریت کی صورت میں اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس وقت ہمیں ایک ایسے ماحول کی تلاش ہے جہاں باہمی سطح پہ میل جول اور برداشت کا عنصر غالب نظر آئے۔پرتشدد اور انتہا پسندی پر مبنی واقعات سے ہماری داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر نہ صرف ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ دنیا ہمیں منفی انداز میں اجاگر کرکے تنقیدی سوالات بھی اٹھاتی ہے۔
یہ وہ صورتحال ہے جس کی طرف ملک کے اہل فکرودانش اشارہ کرتے رہتے ہیں اور سیاسی و سماجی مقتدرہ کو اس جانب اقدامات کی دعوت دیتے ہیں۔ اپنے مسائل کی نشاندہی سے ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ معاشرہ مزید بہتر ماحول کے لیے سازگار بن سکے۔ دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں ان مسائل کی قبولیت اور انہیں تسلیم کرنے کا عنصر پہلے سے زیادہ بڑھا ہے، اور وقت کے ساتھ اس احساس میں تقویت آئی ہے، جوکہ اصلاح کے لیے پہلا زینہ ہے۔اگرخطے کے پڑوسی ممالک میں اقلیتوں اور مذہبی آزادی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کا معاملہ تقابلی تناظر میں قدرے بہتر ہے، خصوصا بھارت کے حالات یہی بتاتے ہیں۔
عدم برداشت کے خاتمے کےلیے مکالمے اور بات چیت کی روایت کو زندہ کرنا ضروری ہے۔ یہ صرف مذہبی دائرے میں نہیں بلکہ عمومی سماجی تربیت کے تناظر میں ہونا چاہیے۔مکالمے کی روایت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تعلیمی اداروں اور ان سے منسلک شخصیات میں مکالمے کی افادیت و ضرورت کا احساس اجاگر کیا جائے ۔ اساتذہ چونکہ سماج کی کردار سازی اور اخلاقیات و اقدار کی اصلاح میں کلیدی کردار کے حامل ہیں ، چنانچہ ضروری ہے کہ ان کے اندر یہ احساس جاگزیں ہو کہ تعلیمی اداروں میں تنقیدی صلاحیتوں کی نمو اور منطقی سوچ بچار کی پرورش اور حوصلہ افزائی سے ایک نئے سماج کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور طلبہ کی تربیت کے لیے لازمی ہے کہ اساتذہ سکھانے کے عمل کے تمام رموز و اوقاف سے آگاہ ہوں اور وہ صحیح نہج پر طلبہ کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔
پاکستان میں بہت کم افراد اور ادارے نظامِ تعلیم میں امن ، ہم آہنگی اور برداشت کی ثقافت کے فروغ کے لیے اساتذہ کی تربیت اور موثرعلمی مباحث پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ حتٰی کہ پاکستانی حکومتیں بھی تعلیمی نظام میں اس طرح کی اصلاحات کے حوالے سے کوئی قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔ اس حوالے سے اٹھائے گئے بیشتر اقدامات نصابی تبدیلیوں یا اصلاحات اور تعلیم، امن اور شعور کے فروغ کے لیے سرگرمیوں کے آغاز اور ان میں طلبہ کی شمولیت پر مرتکز رہے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی آزادی سے متعلق قوانین تو موجود ہیں، لیکن چونکہ ہمارے ہاں مذہبی آزادی کو سماجی سطح پر زیربحث نہیں لایا جاتا اس لیے عدم برداشت اور کشمکش کی کیفیت کو جگہ ملتی ہے اور عام لوگوں کا خیال بن گیا ہے کہ اپنے مذہب یا مسلک کو قبول کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ دوسرے کو مسترد کیا جائے۔
سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری برصغیر میں ہمیشہ رہی ہے اور ہم یہاں کے مختلف النوع کلچر اور تہذیبی ورثہ پر فخر محسوس کرتے رہے ہیں۔ اگر آج کچھ مسائل نظر آرہے ہیں تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے کئی گورننس کے مسائل کے ساتھ جڑی ہیں۔ لہذا پاکستان میں مذہبی عدم برداشت کو ختم کرنے کے لیے کئی حوالوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔