مذہبی آزادی اور پرتشددواقعات: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات و مباحث

0

جب بھی پاکستان میں مذہبی آزادی یا مذہبی رواداری سے متعلق مسائل کا تذکرہ ہوتا ہے تو اسلامی نظریاتی کونسل کا نام بھی سامنے آتا ہے۔ بالخصوص جب اقلیتوں کے حوالے سے کوئی حادثہ رونما ہو تو ملک کے حکام اور عوام دونوں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف دیکھتے ہیں، تاکہ متعلقہ امور پر اس وقیع ادارے سے رائے لی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل وقتاً فوقتاً ان موضوعات پر اپنی سفارشات پیش کرتی رہتی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران چند ایسے واقعات رونما ہوئے جو شدید نوعیت کے تھے اور جن کی وجہ سے ملک کا بین الاقوامی امیج متأثر ہوا۔ اس صورتحال میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک میں مذہبی رواداری کو یقینی بنانے اور اقلیتوں کے خلاف واقعات کی روک تھام کے لیے عمدہ سفارشات پیش کیں اور اپنے اجلاسوں میں  اس موضوع پر سیرحاصل بحث کی جو خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ کونسل کی ان سفارشات و مباحث میں سے کچھ نمایاں چیزوں کو یہاں پیش کیا جاتا ہے۔

قومی پالیسی برائے بین المذاہب ہم آہنگی

پاکستان ایک کثیرالثقافتی ملک ہے اور یہاں مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کے لوگ رہتے ۔ عام طور پہ یہ ساری اکائیاں پرامن زندگی گزارتی ہیں اور بقائے باہمی پر یقین رکھتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات کچھ مسائل بھی جنم لیتے ہیں جس سے امن متأثر ہوتا ہے۔ سال 2017-18 کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل نے بین المذاہب مکالمہ اور تعاون کے بارے قومی پالیسی پر ایک مسودہ منظور کیا تھا جس کے تحت بہت سی اہم تجاویز پیش کی گئی تھیں ۔

اس ضمن میں پہلے پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق مسائل و انتظامی پالیسیوں کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا جو نکات کی صورت درج ذیل ہے جس سے ملک کی واقعاتی صورتحال کا پتہ چلتا ہے:

1 –    پاکستان نے اپنے قومی پرچم میں اقلیتوں کو شامل کیا ہے جو کہ ملک کی تمام نئی اور پرانی اقلیتوں کے تحفظ، خوشحالی اور شمولیت کے سلسلے میں  ایک وضع شدہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔

2   –   کچھ  اقلیتوں  کی ملازمتوں کی نوعیت برطانوی راج کا نتیجہ ہے۔ ملک پاکستان ان کی اس تکلیف دہ حالت کا ذمہ دار نہیں ہے۔

3 –    پولیس کی ناکامیاں خاص طور پر اقلیتوں سے متعلق نہیں ہیں۔ یہ ناکامیاں عمومی نا اہلی/ غفلت اور لوگوں کا پولیس کے ساتھ صحیح رویہ نہ رکھنے کو ظاہر کرتی ہیں۔

4 –    نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ زیادہ تر بین المسالک سر گرمی ہے جو کہ ایک قابل تشویش معاملہ ہے اور اس  کا انتظامی اور سیاسی طور پر تدارک ہونا چاہیے۔ اس طرح کی نفرت انگیز تقاریر  شاذو نادر ہی اقلیتوں کے خلاف کی جاتی ہیں۔

5 –    بنیادی چیلنج قانون کے  مؤثر نفاذ کو یقینی بنانا ہے۔

6 –    ملک اور آئین کے نظریاتی تقدس پر سمجھوتہ کرکے میڈیا پر منفی پروپیگنڈا نہیں ہونا چاہیے۔

7 –    جبری مذہب کی تبدیلی کا مسئلہ باعث تشویش ہے لیکن  ہر معاملے کے حقائق کو کسی نہ کسی طرح توڑ مروڑ کر نہیں پیش کرنا چاہیے۔ اس طرح کے معاملات میں عدالتوں کو  اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا۔

8 –    اقلیتوں کو باقی شہریوں کی طرح پوری آزادی ملنی چاہیے اور یہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کے جملہ حقوق کو یقینی بنائے جو انہیں آئین پاکستان میں دیئے گئے ہیں۔

بین المذاہب مکالمہ و تعاون کو کامیاب بنانے کے لیے حکمت عملی

اس مسودے میں کونسل کی جانب سے کچھ تجاویز بھی پیش کی گئیں جو اس مقصد کو کامیاب بنانے میں کردار ادا کرسکتی ہیں۔کیونکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق روایتی طریقہ کار اپنانے کے ذریعے ان مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے تاہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر حسب ذیل نئی اور غیر روایتی حکمت عملیوں کے ذریعے یہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پہ یہ اقدامات ناگزیر ہیں:

1 –    پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے دستوری ادارے کی  حیثیت سے قومی کمیشن برائے اقلیات(این سی ایم) کا قیام۔

2 –    وزارت مذہبی امورو بین المذاہب مکالمہ اور تعاون این سی ایم کو اعتماد میں لے گی اور بین المذاہب تعلقات کو مضبوط  کرنے کے لیے ذرائع و وسائل تجویز کرے گی۔

3 –    این سی ایم اپنے ممکن منصوبے تیار کرے گی تاکہ کسی نا خوشگوار صورتحال سے نبٹا جائے، علماء اور غیر مسلم کمیونٹی کے قائدین کے ساتھ مشاورت کرے گی تاکہ مذہبی برداشت کو فروغ دیا جائے، امن قائم کیا جائے اور معاشرے میں مکالمہ اور تعاون کی فضا قائم کی جائے۔

4  –    این سی ایم صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ذریعے ضلعی بین المذہب  مکالمہ اور تعاون کی کمیٹیوں کے ساتھ رابطہ کاری کرے۔

5 –    این سی ایم وفاقی دارالحکومت اور صوبوں میں کسی جگہ کا دورہ کر سکتی ہے، ملاقات کر سکتی ہے، اجلاسوں کا انعقاد کر سکتی ہے، جب کبھی  حقائق معلوم کرنے کی ضرورت پڑے۔

6 –    امن اور برداشت کے مشترکہ نصب العین کے لئے مختلف مذہبی کمیونٹیوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا آپس میں انضمام کرانے کے لیے قومی بین المذاہب مہمات کا آغاز کیا جائے۔

7 –    ایسے افراد کی نشاندہی کی جائے گی جنہوں نے بین المذاہب مکالمہ اور تعاون کی سرگرمیوں میں کردار ادا کیا ہو اور ایسے افراد کی معاونت کی جائے گی اور انہیں رابطہ کار ذرائع کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

8 –    اقلیتوں کے خلاف تشدد، ان کے خلاف امتیازی سلوک اور ان کی نقل مکانی وغیرہ کے بارے میں صوبائی حکومتوں سے معلومات طلب کی جائیں گی۔

9 –    وفاقی دارالحکومت اور صوبوں میں بین المذاہب مکالمہ اور تعاون کے بارے میں سیمیناروں، ورکشاپوں اور مشاورتی اجلاسوں کا انعقاد کیا جائے گا۔

10 –      اقلیتوں کی شکایات پر بروقت ردِعمل دینے اور ناخوشگوار واقعات رونما ہونے کی صورت میں فوری اقدام کرنے کے لیے وزارت مذہبی امور و بین المذاہب مکالمہ اور تعاون میں ٹال فری ٹیلی فون نمبر کے ساتھ ایک مرکز شکایات قائم کیا جائے گا۔

11 –      متعلقہ وفاقی وزارتوں/محکموں اور صوبوں کے ساتھ مسائل اٹھائے جائیں گے تاکہ کسی نا گزیر واقعے سے نبٹنے کے لیے  اقدامات اٹھائے جائیں۔

12 –      اقلیتوں کے لیے قومی تقافتی ایوارڈز کی بحالی۔

13 –      مالی معاونت، چھوٹے ترقیاتی منصوبوں اور اسکالر شپ، اقلیتوں کے لیے ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹے وغیرہ پر عملدرآمد کے ذریعے اقلیتوں کو قومی دھارے میں لایا جائے گا۔

14 –      حکومتی حلقوں، بیرون ملک وفود یا  اسٹودنٹ ویزوں کے تبادلے وغیرہ جیسے تمام  شعبوں میں ہر سطح پر اقلیتوں کی نمائندگی/شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔

15 –      آگاہی پیدا کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ اور مقامی ابلاغی نظام کو متحرک کیا جائے گا۔

16 –      مساوی بنیادوں پر قدرتی آفات، ہنگامی حالات، حادثات اور تصادم سے متاثرہ اقلیتوں کی معاونت بین المذاہب مکالمہ اور تعاون کی قومی پالیسی کا بنیادی حصہ ہوگا۔

17 –      بین المذاہب مکالمہ اور تعاون کی قومی پالسی سے متعلق موجودہ قوانین، اگر کوئی ہوں، کی نظرثانی کی جائے گی تاکہ ان قوانین کے موجودہ اثرات کو تقویت بخشی جائے اور ایسے قوانین کی نشاندہی کی جائے جن میں  ترمیم یا توسیع درکار ہو۔

اقلیتوں کا چارٹر آف ڈیمانڈ

سال 2007ء کے دوران اقلیتوں نے حکومت سے کچھ مطالبات کیے تھے جو آئین اور انتظامی حوالے سے بعض ترامیم سے متعلق تھے۔ وہ چارٹر آف ڈیمانڈ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا گیا جس پر کونسل نے یہ فیصلہ دیا:

مطالبہ 1 : آئین میں قرار داد مقاصد کی جگہ قائداعظم کی تقریر کو لکھا جائے۔

فیصلہ:               تقاریر کو آئین کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا، قائداعظم کی اس تقریر میں جو اصول بیان ہوئے تھے، وہ آئین کا حصہ بنا دیے گئے ہیں۔

مطالبہ2 :  شریعت کے تحت بنائے گئے قوانین کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں ہونا چاہیے۔

فیصلہ:              اقلیتوں کا یہ مطالبہ درست ہے کہ غیر مسلموں کے شخصی معملات کا ان کے شخصی قوانین کے تحت فیصلہ کیا جانا چاہیے۔

مطالبہ3:    اقلیتوں کے شخصی قوانین میں حالات کے مطابق ترمیم ہونی چاہیے۔

فیصلہ:               اقلیتوں کا یہ مطالبہ جائز ہے لہذا ان کے شخصی  قوانین میں حالات کے مطابق مناسب ترمیم ہونی چاہیے۔

مطالبہ4:    اقلیتوں کو اسلامی نظریاتی کونسل میں مناسب نمائندگی دی جائے۔

فیصلہ:               چونکہ وزارت مذہبی میں اقلیتوں کے مسائل کے لیے پہلے سے ایک الگ ڈیسک بنا ہوا ہے، لہذا کونسل میں اقلیتوں کو نمائندگی دینے کی ضرورت ہے اور نہ الگ ڈیسک بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی اقلیات کے بارے میں برطانوی پارلیمانی وفد کی رپورٹ

27 ستمبر تا 3 اکتوبر، 2019 ء کے دوران ایک برطانوی پارلیمانی وفد نے مسٹر جم شینون(چیئرمین، اے پی بی جی فار مینارٹیز) کی سربراہی  میں پاکستان کا پانچ روزہ دورہ کیا تھا۔ وفدکا مقصد پاکستان میں انسانی حقوق اور خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ برطانوی وفد نے مختلف حکومتی نمائندوں اور تنظیموں، مسیحی کمیونٹی کےسربراہان اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مختلف این جی اوز سے ملاقاتیں کیں۔ علاوہ ازیں   چیئرمین کونسل سے بھی خصوصی ملاقات کی۔ اس دوران مختلف سرکاری اورغیر سرکاری تنظیموں اور اداروں نے برطانویں وفد کی بھر پور معاونت کی جس میں اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد، بھی شامل ہے۔

برطانوی وفد نے اپنا دورہ مکمل کرنے کے بعد ایک رپورٹ مرتب کی اور وفد کے سربراہ مسٹر جم شینون (Mr. Jim Shanoon) نے یہ رپورٹ  چیئرمین کونسل کو ارسال کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس رپورٹ کے بارے میں اپنے خیالات سے آگاہ فرمائیں، اس کے علاوہ ایسے اقدامات کی نشاندہی   بھی کریں جو مستقبل میں اٹھائے جا سکیں۔ اس کے بعد وزارت انسانی حقوق کی طرف سے بھی مراسلہ موصول ہوا جس میں انہوں نے اس رپورٹ کے بارے میں کونسل   سے ضروری کاروائی کی درخواست کی تھی۔

 رپورٹ کا خلاصہ

رپورٹ میں پاکستان کی اقلیتوں اور دیگر انسانی حقوق سے متعلق درپیش  مسائل کا جائزہ لیا گیا، مثلاً مذہبی انتہا پسندی، فرقہ وارانہ فسادات و اختلافات، توہین رسالت، جبری تبدیلی مذہب، وغیرہ۔ رپورٹ میں مختلف عنوانات کے تحت سفارشات بھی دی گئیں کہ ملک میں اقلیتوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے یہ اقدامات کیے جانے چاہیئں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کےشعبہِ تحقیق کا تبصرہ

برطانوی وفد کی رپورٹ کا کونسل کے شعبہ تحقیق نے تفصیلی جائزہ لیا۔ اس کے مطابق رپورٹ میں جو صورت حال بیان کی گئی  اس میں زیادہ تر ایسے مسائل ہیں جن کا تعلق انتظامی امور سے ہے ۔

مزیدیہ کہ پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے اور کونسل نے ہمیشہ اقلیتوں کے جائز حقوق کے تحفظ کی حمایت کی ہے، اسلام میں بھی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت موجود ہے، ایک اسلامی ریاست غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور دیگر تمام شہری حقوق کےتحفظ  کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ کونسل نے سپریم کورٹ کے فیصلہ(بتاریخ 19 / جون 2014 ء جناب جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ) کی بھرپور حمایت اور تائید کی ہے جس میں وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جس کے ذمہ مذہبی رواداری کے قیام کا لائحہ عمل تشکیل دینے کا کام ہو۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے دیگر اہم نکات درج ذیل ہیں:

1 –         مذہبی اور سماجی رواداری و ثقافت پر مبنی نصاب

2 –         مذہبی آزادی اور دوسرے کے اعتقاد کی تعظیم

3 –         نفرت آمیز مواد کے والے سے قانون سازی

4 –         اقلیتوں کے حقوق کے لیے قومی کونسل

5 –         مخصوص پولیس فورس جو اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے

6 –         اقلیتوں کے لیے تمام محکموں میں مناسب کوٹہ

7 –         عدالت عظمی کے فیصلے پر اس کی صحیح روح کے مطابق عمل درآمد

پاکستان کی اقلیتوں اور برطانوی پارلیمانی وفد کے دورے کی رپورٹ کے حوالے سے پاکستان کا آئین اقلیتوں کے بارے میں بہت واضح ہے۔ پاکستان کے آئین  میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت موجود ہے۔ ایک اسلامی ریاست غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور دیگر تمام شہری حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ نیز پاکستان کے قانون میں توہین ریاست کے غلط استعمال کرنے والوں کے لیے سزا کی گنجائش موجوں ہے اور عدالتی اسی طرح کے کیسوں کی درست چھان بین کرتی ہیں۔ نیز احمدی آئینی تقاضے کے مطابق خود کو مسلمان ظاہر کرنے پر اصرار نہ کریں تو وہ اقلیتوں کے سارے حقوق حاصل کر سکتے ہیں بشمول سیاسی نمائندگی کے، پھر حکومت پاکستان اقلیتوں کے لیے مزید اقدامات اٹھا رہی ہے۔ مثلاً:

1-         1500 سکھوں کو ننکانہ صاحب آنے کے لیے سرحد عبور کرنے کی اجازت۔

2 –   کرتارپور کی راہداری اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

3 –   سیالکوٹ میں 1947 سے بند کیا گیا ہزار سالہ پرانا مندر کھول دیا گیا ہے۔

4 –    بلوچستان ژوب میں کئی دہائیوں سے بند مندر کھول دیا گیا ہے ، نیز پاکستان میں اقلیتوں کو جس قدر حقوق حاصل ہیں، اتنے کسی دوسرے ملک میں حاصل نہیں ہیں۔

5 –   مثلاً یونین کونسل سے لیکر قومی اسمبلی تک مخصوص نشستیں۔

6     – میڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں میں مخصوص کوٹہ بھی ہے اور وہ میرٹ کی بنیاد پر بھی مسلمانوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔

7 –   ملازمتوں میں بھی مخصوص کوٹہ ہے، اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کو بھی گورنمنٹ فنڈ جاری کرتی ہے۔

8 –   اقلیتی نمائندوں کا اضافی فنڈ جبکہ عام ایم پی اے بھی اس فنڈ میں بھی شریک ہیں۔

9 –   اقلیتوں کے نمائندوں کو مسلم نمائندوں سے زیادہ فنڈ ملتا ہے۔

فیصلہ:

اسلامی نظریاتی کونسل نے بطور ادارہ اس وفد کی رپورٹ پر جو فیصلہ دیا اس کے نکات درج ذیل ہیں:

(الف)    برطانوی پارلیمانی وفد کی رپورٹ میں انسانی حقوق بطور خاص اقلیتوں کے حوالے سے  جن مسائل کی نشاندہی کی گئی، ان میں تو بعض مسائل واقعتاً موجود ہیں، جن میں اصلاح کی گنجائش ہے، تاہم رپورٹ سے ابھرنے والا منفی تاثر درست نہیں۔ حکومت پاکستان  ریاستی و حکومتی ادارے اور پاکستانی عوام کا بحیثیت مجموعی ہمیشہ سے اقلیتوں کے بارے میں مثبت رویہ رہا ہے،  جس کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔

(ب) کونسل نے ہمیشہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان کی غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں جائز حقوق کی حمایت کی ہے۔ آئین پاکستان میں بھی اقلیتوں کو جملہ حقوق اور مکمل آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہے۔

(ج)   غیر مسلم اقلیتوں کے تحفظ کے لیے عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں، اس ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ (مؤرخہ 19 جون 2014 ء) نہایت اہم ہے اور کونسل نے اپنے اجلاس میں اس فیصلے کو سراہا اور اس کی مکمل تائیدو حمایت کی، کونسل سپریم کورٹ کے فیصلے پر مناسب اور مؤثر عملدرآمد کرنے کی سفارش کرتی ہے۔

(د)    غیر مسلم اقلیات کو پاکستان کی پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ میں بھی نمائندگی حاصل ہے، سیاسی جماعتوں میں بھی نمائندگی حاصل ہے، جہاں سے وہ اپنے حقوق کے تحفظ کی بات کر سکتے ہیں اور اپنے جائز مطالبات کے لئے یہ فورمز بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

(ھ)  جن حلقوں کی طرف سے پاکستان میں غیر مسلم اقلیات کے حاصل شدہ حقوق و مراعات کے ضمن میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں اقلیات  محفوظ نہیں ہیں یا ان پر ظلم و ستم  روا رکھا جا رہا ہے اور انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، یہ کاوشیں کونسل کی نظر میں قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہیں۔

(و)     کونسل متعلقہ وزارت کے لیے تجویز کرتی ہے کہ پاکستان کی غیر مسلم اقلیات کے بارے میں باقاعدہ ڈاکومنٹیشن ہونی چاہیے، جس میں تمام حقائق کو غیر جانبدار انداز میں درج کیا جائے اور وہ تمام حقوق جو آئینی و قانونی طور پر اقلیات کو حاصل ہیں، ان کی تفصیل درج ہو، اور جو مطالبات  اور مسائل ابھی مختلف فورمز پر زیرِ غور ہیں۔ ان کی فہرست بھی درج کی جانی چاہیے اور ڈاکومنٹیشن کوایک کتابچہ کی صورت میں شائع کیا جائے، اس کی اشاعت سے مجموعی صورتِ حال پر خوشگوار اثر پڑے گا اور اچھا تاثر قائم ہوگا۔

(ز)             جن اقلیات نے ابھی تک اپنی آئینی حیثیت خود تسلیم نہیں کی، ان کے بارے میں دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ مسلم نہیں ہیں، یہ اقلیات اپنی آئینی حیثیت تسلیم کر کے  تمام حقوق اور مراعات جو دیگر اقلیات کو حاصل ہیں وہ حاصل کر سکتی ہیں۔