کیا افغان مہاجرین کا انخلا بہتر طریقے سے ممکن نہیں تھا؟
اکتوبر 2023 کو پاکستانی حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو یکم نومبر تک کا الٹی میٹم دیتے ہوئے ملک چھوڑنے کا حکم صادر کیا جس کے بعد افراتفری میں مہاجرین کو اپنا ساز وسامان، گھر بار بیچ کر افغانستان روانہ ہونا پڑا۔ اچانک ملک چھوڑنے کے حکم کی وجہ سے افغان مہاجرین اپنی جائداد کی اصل قیمت بھی نہ حاصل کر سکے اور ان کو کوڑیوں کے بھاؤ اپنا سب کچھ بیچنا پڑا جو بھی پاکستان میں اپنے قیام کے دوران کمایا۔ علاؤہ ازیں مہاجرین کے جانے کے بعد پراپرٹی کی قیمتوں میں واضح کمی دیکھنے کو ملی جس کی ایک وجہ افغانی مہاجرین کی مجبوری تھی مگر ایسا تاثر دیا جاتا رہا جیسے مہاجرین کے قبضے میں پراپرٹیز ہونے کی صورت میں گھر وغیرہ مہنگے دستیاب تھے۔
بہر حال افغان مہاجرین کے انخلا کے دوران کچھ باتیں رہ گئیں جن کا ذکرکیا جانا ضروری ہے۔ جیسا کہ اب حالات کے تناؤ میں کمی ہو رہی ہے۔ مہاجرین کے انخلا پر لوگوں کی مختلف آراء ہیں، کچھ حکومتی بیانیے کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں اور وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو ملکی معیشت کے لئے خوش آئند سمجھتے ہیں جبکہ پاکستان کے کئی فکری حلقے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور حکومت کے افغان مہاجرین سے متعلق حالیہ اقدام سے نالاں ہیں۔ دیکھا جائے توتصویر کے دونوں رخ اپنے سیاق و سباق کے دائرے میں درست ہیں۔ افغانیوں کے انخلا پر مختلف رائے رکھنے والے حلقے اپنے اپنے پس منظر کے مطابق معقول تجزیہ دے رہے ہیں۔
حکومتی بیانیے کو صحیح ماننے والے حکومتی اقدام کی تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست اپنے لوگوں کو ٹھیک سے سنبھال نہیں پا رہی، معیشت بھی ڈگمگا رہی ہے تو ایسے میں کسی دوسرے ملک کے لوگوں کا بوجھ ریاست کیسے برداشت کر سکتی ہے؟ دوسری طرف ریاستی اقدام سے اختلاف رکھنے والے طبقے کا ماننا ہے کہ ریاست کا یہ قدم انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جیسا کہ ہر ذی روح کے لیے یورپی معاشرے میں قوانین موجود ہیں چاہے وہ غیر قانونی مہاجرین ہی کیوں نہ ہوں ، اس نقطہ نظرکو ہمارے ہاں ماننے والے ریاست کے اس فیصلے سے نا خوش ہیں اور یہ بات یہاں تک بالکل ٹھیک ہے کہ مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے ضروری انتظامات کرنے کی ضرورت تھی تاکہ ان کو اچانک نوٹس پر فوری اقدامات کے نتیجے میں سستے داموں اپنی چیزیں فروخت نہ کرنی پڑتیں، نہ ہی ان کی زندگیاں خطرات سے دو چار ہوتیں، اگر ریاست ذمہ داری سے افغانیوں کے انخلا کو سر انجام دیتی۔
مگر یہ کہنا کہ مہاجرین کی موجودگی معیشت پر بوجھ نہیں تھی اور ان کو یہاں ہمیشہ کے لیے مقیم رکھنا مناسب تھا،یہ بھی درست نہیں ۔ غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی ضرورت جائز تھی مگر اس طرح اچانک اعلان کرنا دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا۔ اگر یہ اچانک فیصلہ ملکی معیشت کے پیش نظر کیا گیا تو بھی یہ فیصلہ ایک سال پہلے ہی کر لیا جانا چاہئے تھا اور اگر کر بھی لیا جاتا تب بھی وہ صرف ایک اعلان ہونا چاہیے تھا اور انخلا کے لیے خصوصی پلان ترتیب دیا جانا چاہیے تھا تاکہ موجودہ وقت تک کامیابی کے ساتھ افغانیوں کی واپسی ممکن ہوتی، جس سے نہ ریاست کا کوئی نقصان ہوتا نہ ہی بے بس مہاجرین کا۔
اس طرح کے اچانک فیصلوں سے ریاست کی انتظامی امور میں غفلت چھلکتی ہے، کیونکہ اس عمل کو بدنیتی ہر گز نہیں گردانا جا سکتا۔ اس طرح کے فیصلوں میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں آپ کو غیر قانونی مہاجرین سے متعلق اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2006 میں یورپی کونسل کی پارلیمانی اسمبلی میں غیر قانونی مہاجرین کے حقوق کی خاطر ہجرت، مہاجرین اور آبادکاری کی کمیٹی نے ایک رپورٹ پیش کی جس کے آرٹیکل 12.2 میں درج ہے کہ غیر قانونی مہاجرین کو تشدد، غیر انسانی سلوک یا کسی بھی قسم کی سزا یا رسوا کن رویے سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ مزید یہ کہ غیر قانونی مہاجرین کی واپسی با عزت طریقے سے کی جائے اور واپسی کے وقت دوسری چیزوں کے ساتھ ان کی عمر، صحت، جنس اور کسی قسم کی معذوری کو دھیان میں رکھا جائے۔غیر قانونی مہاجرین کی واپسی کے مرحلے میں زور زبردستی والے اقدامات کم سے کم اٹھاۓ جانے چاہیے۔
مگر ہماری ریاست نے ان میں سے شاید ہی کسی چیز کا خیال رکھا ہوگا۔ اگر افغان مہاجرین بہ حفاظت وطن پہنچ بھی گئے تو وہ حفاظت صرف کاغذی ہی سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ واپسی پر افغانیوں کا سستے داموں خریدی گئی جائیدادوں کے ذریعے استحصال کیا گیا اور جان و مال کی مکمل حفاظت ہی حقیقی معنی میں حفاظت کہلائی جا سکتی ہے۔ اوپر جس رپورٹ کا ذکر کیا گیا وہ اگرچہ یورپ میں مقیم غیر قانونی مہاجرین کے متعلق ہے مگر من و عن انسانیت پر مبنی ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ افغان مہاجرین کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ البتہ ریاست کی اپنی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں جن کی بدولت وہ اپنے اصولوں پر نظر ثانی نہیں کر سکتی مگر اتنا ضرور کر سکتی ہے کہ اپنے انتظامی معاملات کو بہتر بنا کر کسی لاچار کو اپنے اصولوں کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، جس کی پاکستانی نظام کو اشد ضرورت ہے۔
کیونکہ جب ریاستیں اس طرح کی روش برقرار رکھتی ہیں تو اس کا خمیازہ صرف غیر ملکیوں کو ہی نہیں بلکہ ریاست کے عام شہریوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے جنھوں نے اپنی زندگیاں وہاں گزارنی ہوتی ہیں۔ یہ پہلو پاکستان کے تناظر میں بھی عیاں ہے۔ ہمارا کوئی بھی سرکاری ادارہ دیکھ لیں چاہے وہ اسکول کالجز یا اسپتال ہوں، کوئ بھی سرکاری محکمہ ہو وہاں کام نہ کرنے اور لٹکانے کا چلن ہے اور لگتا یوں ہے کہ افغان مہاجرین کو جس کھپت کا سامنا ہوا وہ ہمارے سرکاری خلیفوں کے شاہانہ مزاج کا شاخسانہ ہے۔ مضحکہ خیز طور پر پہلی بار احساس ہو رہا ہے کہ جہاں غیر قانونی مہاجرین پناہ لیے گئے ملک کے قانون اور سرکاری محکموں کی عملداری سے ڈرتے تھے اب وہ اسی عملداری کی دعائیں کریں گے تاکہ کم از کم اچھے سسٹم کی بدولت وہ وقت کی رعایت حاصل کرتے ہوئے اپنے جان و مال کی حفاظت کے ساتھ اپنے وطن پہنچ سکیں۔